پاکستان اور سعودی عرب کے رویے میں تبدیلی کیوں؟




پاکستان اور سعودی عرب کے رویے میں تبدیلی ، ایران اور ہندوستان کے حوالے سے امریکی اقدامات ہیں


جان اچکزئی


وزیراعظم عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ تقریبا ایک سال کے عرصے کے بعد ممکن ہواہے۔ اس دوران سعودی عرب اور پاکستان کے مابین تعلقات میں سردمہری دیکھنے میں آیی ۔

جغرافیائی سیاسی مجبوریوں کی اپنی غیر منطقی دلیل ہے کہ وہ کسی ملک کو رویوں اور سیاسی چال چلن میں تبدیلی کرنے پر قا ئل کریں۔ سعودی کیلکولس کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔


سب سے اہم مسئلہ ایران کا ہے۔ تہران جوھری ھتھیار کے لیے متحرک ہے ۔ یہ عراق ، لیبیا اور یوکرین کی قسمت کو جانتا ہے  جنھیں جھوری صلاحیت  کے بغیر سزا دی گیں ۔

بقا کیلئے ایٹمی طا قت کا ہونا لازمی ہے۔      


  ۔ اگرچہ صرف اسرائیل ایرانی ارادے اور جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کے لئے ایک اسٹریٹجک خطرہ ہے لیکن تہران کو نہں روک سکتا۔ 

تہران اور امریکہ کا


   JCPOA

میں واپسی ، اس مرحلے میں دونوں ممالک کے لیے ایک سہولت کے طور پر موزوں عمل ہے۔۔ یعنی ایران پابندیوں سے نجات اور امریکا بالترتیب "حکومت کی تبدیلی" کے "نو قدامت پسند" نظریات پر پردہ ڈالیں۔ بہرحال ، امریکہ کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر دستخط کرنے کا مطلب کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی فریق واپس ہوسکتا ہے جیسا کہ صدر ٹرمپ دو سال قبل معا ہدے سے  پیچھے ہٹ گیا تھا۔

اس طرح یہ حقیقت سعودی اسٹریٹجک کیلکولس کو متاثر کررہا ہے۔ لہذا ممکنہ طور پر ہونے والے ان تبد لیوں کو کبھی قبول نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ وہ نقطہ ہے جہاں اگر سعودی عرب نے جوہری تجربہ کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی مدد لے سکتا ہے یا اسلام آباد مددگار ہوسکتا ہے ۔

سعودی عرب اور پورا مشرق وسطیٰ نئی جیو سیاسی حقیقت کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنا سیکھ رہا ہے یعنی اس خطے سے امریکہ پیچے ہٹ رہا ہے۔ اس طرح ریاض سیکیورٹی اور تزویراتی دائرہ کار میں ہونے والے کسی بھی نقصان کو دور کرنے کے لئے ایک نئی سفارتی کارروائی کر رہا ہے۔ اس متحرک صورتحال کو دیکھتے ہوئے  ریاض نے شام کے ساتھ پہلے ہی بات چیت کا آغاز کیا ہے ، ترکی سے منسلک ہوا ہے ، کچھ حد تک معمول کا تعلق اسرائیل کے ساتھ قائم کیا ہے ، قطر کے ساتھ تعلقات کو بحال کیا ہے ، اور یمن کا پیچیدہ مسلہ حل کرنے کی کوشش کی ہے۔  

 اب سعودیہ اور پاکستان کے تعلقات کو پثری پرڈال دیا گیا ہے۔

اسلام آباد کے لئے یہ نئی گرم جوشی ایک اور وجہ سے بھی ہے۔ سعودیہ

متوقع طور پر بڑی علاقائی پیشرفت کے لئے متحدہ عرب امارات کے ساتھ شامل ہوا ہے یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی معامیلات مں بریک تھرو کی توقع کی جارہی ہے۔

بہت محنت ، پسینہ ، وقت کی سرما یہ کاری اور مہینوں کی تیاری کے بعد، یہ تو قع بنی ہے۔

ممکنہ طور پر ہندوستان اورپاکستان میں عوامی ردعمل کی وجہ سے فوری طور پر اس کا اعلان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پہلی بار انٹیلیجنس کی سطح پر بھارت اور پاکستان کے مابین "بیک چینل مذاکرات" کا اعتراف کیا ہے۔ اگر کوئی پیشرفت نہ ہوتی تو وہ اسے پہلے ہی تسلیم نہ کرتے۔ لیکن دونوں حکومتیں ، یعنی ہندوستان اور پاکستان ، کسی اچانک پیشرفت سے گریز کر رہی ہیں ، ایک طویل عرصے سے مخفی چینل کے بعد ، دونوں ممالک کے عوامی رائے اور متعلقہ حلقوں کو اعتماد میں لیے بغیر ممکنہ پیش رفت ختم ہوسکتی ہے ۔ لیکن پاکستان پہلے ہی ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں اسٹریٹجک توقف

 چاہتا ہے تاکہ

گھرکے معاملات خصوصا کمزور معیشت اور افغانستان کے امور پر توجہ دے سکے۔ اس کے علاوہ یہ توقف افغان محاذ پر امریکی دباؤ اور چین کے خلاف دہلی اور واشنگٹن کے گٹھ جوڑ میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں اسلام آباد کے لئے گرمی کم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

ایک اور عملی میکانزم جو اقتصادی منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے اہم ہے، مثال کے طور پر 20 بلین ریفائنری پروجیکٹ (جیسے سعودی حکومت نے پہلے ہی اعلان کیا ہے) بھی سربراہی اجلاس کے بعد قائم کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیر اعظم اور ولی عہد شہزادہ کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے ، جو سعودی عرب اور پاکستان کے مابین ایک اعلی سطحی رابطہ کونسل کے قیام کا باعث بنے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "تشکیل شدہ سٹریکچر کا منصوبہ" تیار کیا گیا ہے۔

سعودی لیبر مارکیٹ اور ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کے لئے اہم ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ بن سلمان کے مطابق ، سعودی عرب کو اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اگلے دس سالوں میں دس ملین افرادی قوت کی ضرورت ہوگی ، جن میں سے بیشتر پاکستان سے آئیں گے جو پاکستانی مارکیٹ کی ضروریات کے لئے ایک خوشخبری ہے۔

لیکن خطے میں اور خطے سے بہار امریکہ کا بدلتا ہوا جغرافیائی سیاسی اور تزویراتی کردار جس کا تعلق بنیادی طور پر ایران اور ہندوستان سے ہے، نے

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہماھنگی کو بڑی حد تک آگے بڑھا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Why Pakhtuns' peace now?

جنرل باجوہ نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ہموار كیے۔ پی ٹی آئی حکومت کو اس اہم تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جان اچکزئی